حقیقت و اقسامِ شرک | Haqeeqat o iqsaam shirk (Record no. 11223)

000 -LEADER
fixed length control field 23232nam a22001697a 4500
005 - DATE AND TIME OF LATEST TRANSACTION
control field 20220802154607.0
008 - FIXED-LENGTH DATA ELEMENTS--GENERAL INFORMATION
fixed length control field 220802b ||||| |||| 00| 0 eng d
040 ## - CATALOGING SOURCE
Transcribing agency PK-SiUMT
082 ## - DEWEY DECIMAL CLASSIFICATION NUMBER
Classification number Q&I 297.2
Item number ISR-H 2021 12638
100 ## - MAIN ENTRY--PERSONAL NAME
Personal name ڈاکٹر اسرار احمد | Dr. Israr Ahmed
9 (RLIN) 4589
245 ## - TITLE STATEMENT
Title حقیقت و اقسامِ شرک | Haqeeqat o iqsaam shirk
260 ## - PUBLICATION, DISTRIBUTION, ETC.
Place of publication, distribution, etc. : لاہور
Name of publisher, distributor, etc. , مکتبہ خدّام القرآن لاہور
Date of publication, distribution, etc. 2021.
300 ## - PHYSICAL DESCRIPTION
Extent 128 pages ;
Dimensions 126 cm.
520 ## - SUMMARY, ETC.
Summary, etc. {اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدِ افۡتَرٰۤی اِثۡمًا عَظِیۡمًا ﴿۴۸﴾}
(النساء)

’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ یہ بات تو کبھی معاف نہیں کرے گا کہ اُس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے‘ اور اس (۲۷)کے ماسوا جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہے گا معاف کر دے گا۔ اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرایا اُس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ تصنیف کیا۔‘‘
{… وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا ﴿۱۱۶﴾} (النساء)

’’… اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرایا وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا۔‘‘
{وَ اِذۡ قَالَ لُقۡمٰنُ لِابۡنِہٖ وَ ہُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشۡرِکۡ بِاللّٰہِ ؕؔ اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۳﴾} (لقمٰن)

’’ اور یاد کرو جب کہ لقمان نے کہا اپنے بیٹے سے‘ اور وہ اسے نصیحت کر رہے تھے کہ اے میرے بچے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کیجیو‘ یقینا شرک بہت بڑا ظلم (اور بہت بڑی ناانصافی) ہے‘‘۔
’’حقیقت و اقسامِ شرک‘‘ کے موضوع پر مفصل گفتگو کا یہ سلسلہ اغلباً چھ نشستوں پر مشتمل ہو گا۔ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ اس کوشش کے ذریعے سے اُمت مسلمہ میں حقیقتِ شرک کے بارے میں صحیح فہم و شعور پیدافرمائے اور اس ضمن میں ہم سے کوئی مفید خدمت قبول فرمالے!
ابتداء ً مجھے اس موضوع سے متعلق کچھ تمہیدی باتیں گوش گزار کرنی ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے دین کی حقیقت کو اگر ایک لفظ میں تعبیر کرنے کی کوشش کی جائے‘ یا بالفاظِ دیگر اس کی تعلیم کے لبِّ لباب اور خلاصے کو ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ لفظ ’’توحید‘‘ہے۔ ہمارا دین دراصل ’’دینِ توحید‘‘ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے توحید کو ہی وہ اصل امانت قرار دیا ہے جو مسلمانوں کا طرۂ امتیاز ہے : ؎

توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا!

اور جوابِ شکوہ میں بھی نبی اکرمﷺ کے مشن کو علامہ اقبال نے اسی ایک لفظ ’’توحید‘‘سے تعبیر کیا ہے : ؎
وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے!

تو ہمارا دین اصل میں دین توحید ہے۔ ’’توحید ‘‘کی ضد ہے ’’شرک‘‘۔ شرک چاہے ثنویت کی شکل میں ہو‘ تثلیث کی شکل میں ہو یا کثرتِ آلِــھَہ کی صورت میں ہو‘ اِن سب صورتوںکو ہم ایک ہی لفظ ’’شرک‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اورجب یہ بات طے ہے کہ ہمارا دین‘ دین توحید ہے تو اُس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس دین میں سب سے بڑا جرم اور سب سے بڑا گناہ ‘جو ناقابل درگزر ہے ‘ وہ شرک ہے۔چنانچہ یہی بات سورۃ النساء
میں دو مرتبہ بعینہٖ انہی الفاظ میں وارد ہوئی ہے: {اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ} (آیت ۴۸ و ۱۱۶) ’’یقینااللہ تعالیٰ یہ بات تو ہرگز معاف نہیں کرے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے‘ البتہ اس سے کمتر گناہ جس کو چاہے گا بخش دے گا‘‘۔اگرچہ اس آیت کو دوسرے گناہوں کے ضمن میں کوئی کھلا لائسنس نہیں سمجھ لینا چاہیے ‘ اللہ تعالیٰ کا کوئی پختہ وعدہ اور یقین دہانی نہیں ہے کہ وہ دوسرے گناہ لازماًبخش دے گا ‘بلکہ الفاظ ہیں: ’’لِمَنۡ یَّشَآء‘‘ کہ جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔ لہذا یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ ہمیں کھلی چھٹی مل گئی ہے کہ ہم شرک کے سوا جس گناہ میں چاہیں ملوث ہو جائیں‘ کوئی مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ تاہم اُمید ضرور دلائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں شرک کی معافی کی توکوئی صورت نہیں ہے ‘البتہ اُس سے کمتر گناہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا معاف فرما دے گا۔
بہرحال معلوم ہوا کہ ہمارے دین میں سب سے بڑا گناہ‘ سب سے بڑا جرم‘ جو ناقابل درگزر ہے ‘ وہ شرک ہے۔ اس حقیقت کو یوں سمجھئے کہ ازروئے قرآن سب سے بڑا ظلم شرک ہے۔ بلکہ قرآن مجید میں جہاں بھی لفظ ’’ظلم‘‘ آتا ہے‘ اگر سیاق و سباق سے اس کے کوئی اور معنی معین نہ ہو رہے ہوں تو وہاں اس کا معنی ’’شرک‘‘ ہے اور اسی اعتبار سے ’’ظالمین‘‘ کا معنی ’’مشرکین‘‘ ہے۔ چنانچہ آیت زیر گفتگو میں یہ حقیقت بیان ہوئی : { اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ } ’’واقعہ یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ ‘‘
عربی زبان میں ظلم کا مطلب ہے : وَضْعُ الشَّیْ ءِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ ’’کسی چیز کو اُس کے اصل مقام سے ہٹاکر کسی اور جگہ رکھنا۔‘‘ عدل اور انصاف یہ ہے کہ ہر چیز کو اُس کے اصل مقام پر رکھا جائے‘ جبکہ ظلم یہ ہے کہ کسی شے کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر کہیں اور رکھ دیا جائے۔ اب شرک میں بھی اِن دو میں سے ایک صورت ہوتی ہے کہ یا تو مخلوقات میں سے کسی کو اٹھا کر اللہ کے برابر بٹھا دیا جاتا ہے۔ یہ ’’وَضْعُ الشَّیْ ءِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ‘‘ کی ایک صورت ہے ۔ اور یا پھر اللہ کو (نعوذ باللہ) گرا کر مخلوقات کی صف میں لایا جاتا ہے اور یہ ’’وَضْعُ الشَّیْ ءِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ‘‘ کی دوسری صورت ہے۔ تو معلوم ہوا کہ
’’ظلم‘‘ کا سب سے بڑا مصداق ’’شرک‘‘ ہے۔
ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سورۃ الانعام کی آیت ۸۳ کے حوالے سے نبی اکرمﷺ سے ’’ظلم‘‘ کے بارے میں استفسار کیا تو آپؐ نے سورۂ لقمان کی زیر بحث آیت ۱۳ کا حوالہ دے کر فرمایا کہ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔ جب سورۃ الانعام کی یہ آیت نازل ہوئی: {فَاَیُّ الۡفَرِیۡقَیۡنِ اَحَقُّ بِالۡاَمۡنِ ۚ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۘ۸۱﴾} ’’(حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا کہ اے مشرکو!) اگر تم جانتے ہو تو ذرا بتاؤ کہ دونوں گروہوں (موحّدین اور مشرکین) میں سے کون امن و سکون اور اطمینان کا زیادہ حق دا رہے؟ ‘‘ ایک گروہ مشرکین کا تھا اور ایک موحّدین کا۔ ایک طرف صرف ایک اللہ کے ماننے والے تھے اور دوسری طرف وہ تھے جو اللہ کے ساتھ دوسرے بہت سے معبودوں کو ماننے والے تھے۔ لہذا پوچھا گیا کہ ان میں سے حقیقی ذہنی سکون اور حقیقی قلبی اطمینان کا زیادہ مستحق کون ہے؟ یہ سوال کرنے کے بعد قرآن مجید اپنے ایک عام اسلوب کے مطابق خود جواب دیتا ہے :
{اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یَلۡبِسُوۡۤا اِیۡمَانَہُمۡ بِظُلۡمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الۡاَمۡنُ وَ ہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ ﴿٪۸۲﴾}
’’جو لوگ ایمان لائیں اور اپنے ایمان کو کسی ظلم سے ملوث نہ کریں‘ حقیقت میں امن و سکون (اور اطمینان) کے مستحق وہی ہیں اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘
یعنی جو اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کا کوئی شائبہ پیدا نہ ہونے دیں۔ اس پر صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں تشویش پیدا ہوئی کہ اگر اللہ تعالیٰ کے یہ وعدے مشروط ہیں کہ ایمان کے ساتھ ظلم کی قطعاً آمیزش نہ ہو‘ تو ایسا کون شخص ہو گا جو کسی نہ کسی درجے میں دوسروں پر یا اپنے اوپر ظلم نہ کرتا ہو۔غور کیجیے کہ اگر آپ نے اپنے وقت کا ایک لمحہ بھی ضائع کیا تو یہ بھی اپنے اوپر ظلم ہے۔ تو ظلم سے بالکل بری اوربالکل پاک ہو جانا کسی فردِ بشر کے لیے ممکن نہیں ہے۔چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی اکرمﷺ کے سامنے اپنی اس تشویش کو ظاہر کیا کہ حضورﷺ! ایسا شخص کون ہو گا جو ظلم سے بالکل بری ہو۔ اس پر نبی اکرمﷺ نے تسلی دی کہ اس آیہ ٔ مبارکہ میں ظلم سے مراد شرک ہے۔ اور آپؐ نے سورۂ لقمان کی اسی آیت کا
حوالہ دیا کہ کیاتم نے یہ آیت نہیں پڑھی:

{وَ اِذۡ قَالَ لُقۡمٰنُ لِابۡنِہٖ وَ ہُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشۡرِکۡ بِاللّٰہِ ؕؔ اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۳﴾}

تو مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ ایمان لائیں اِس شان کے ساتھ کہ شرک کی کوئی آمیزش نہ رہے تو وہ ہیں کہ جو امن کے مستحق ہوں گے اور وہی ہیں کہ جوہدایت پر ہیں اور اپنی آخری منزلِ مراد تک پہنچ سکیں گے۔
اب میں اسی کا عکس ((converse)) آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ جب ہمارا دین ‘دینِ توحید ہے تو اس تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہوا کہ سب سے بڑا اور ناقابل معافی جرم اور سب سے بڑا ظلم شرک ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکرآتا ہے۔ آپؑ کی جلالتِ قدر اورمقام و مرتبہ کا یہ عالم ہے کہ آپؑ کی تین تین نسبتیں ہیں اور تینوں ہی نہایت بلند ہیں۔ ایک نسبت اللہ کے ساتھ یہ ہے کہ آپ ’’خلیل اللہ‘‘ ہیں۔ اس خُلّتِ الٰہی کا جو مقام و مرتبہ ہے اس کی عظمت کا کچھ اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ میرا خلیل صرف اللہ ہے۔ یعنی کوئی فردِ نوعِ بشر حتیٰ کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی خُلّتِ محمدیؐ کے مقام پر فائز نہیں ہیں۔ارشادِ نبویؐ ہے: ((لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیْلًا لَاتَّخَذْتُ اَبَابَکْرٍخَلِیْلًا)) (۱) ’’اگر میں کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا‘‘۔ محمد رسول اللہﷺ کا یہ خُلّت کا رشتہ صرف اپنے ربّ کے ساتھ تھا۔ اور یہی وہ رشتہ ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے ربّ کے ساتھ جس کی قرآن اہتمام کے ساتھ وضاحت کر رہا ہے: {وَ اتَّخَذَ اللّٰہُ اِبۡرٰہِیۡمَ خَلِیۡلًا ﴿۱۲۵﴾} (النساء) ’’اور اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو اپنا خلیل بنا لیا‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری نسبت رسولوں اور نبیوں کے ساتھ ہے‘ اور وہ یہ کہ آپؑ ’’ابوالانبیاء‘‘ ہیں۔ سینکڑوں جلیل القدر پیغمبر آپؑ کی نسل میں گزرے ہیں۔ اُولُواالْعَزْمِ مِنَ الرُّسُل میں سے تین یعنی حضراتِ موسٰی‘ عیسٰی اور محمدٌ رسول اللہ علیہم
الصلاۃ والسلام ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے ہیں۔ ان میں سے عیسٰی علیہ السلام اگرچہ بن باپ کے پیدا ہوئے‘ لیکن ان کی والدہ مریم سلامٌ علیہا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل ہی سے ہیں۔ ان کے علاوہ سینکڑوں نبی آپؑ کی نسل میں سے ہیں۔ تو آپ ؑ ابوالانبیاء ہیں ۔
آپؑ کی تیسری نسبت پوری نوعِ انسانی کے ساتھ یہ ہے کہ آپؑ ’’امامُ الناس‘‘ ہیں۔ ارشادِ ربّانی ہے : {وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ؕ قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ؕ} (البقرۃ:۱۲۴) ’’اور (یاد کرو) جب ابراہیم ؑ کو اُن کے ربّ نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ اُن سب میں پورا اتر گیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں‘‘۔اس جلالتِ قدر کے ساتھ قرآن مجید میں جہاں کہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر آیاہے تو اُن کو جو آخری سند دی جاتی ہے وہ یہ ہے: {وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۱۳۵﴾} (البقرۃ) ’’اور آپ (ابراہیم علیہ السلام ) مشرکوں میں سے نہ تھے۔‘‘
معلوم ہوا کہ شرک سے بالکل آزاد ہو جانا انسانیت کے لیے معراج ہے اور یہ بلند ترین مقام ہے جس تک انسان پہنچ سکتا ہے ۔اور جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ یہ فرما دے کہ میرا یہ بندہ مشرک نہیں ہے‘ میرا یہ بندہ شرک سے پاک ہے تو گویا اُسے آخری سند مل گئی‘ آخری سر ٹیفکیٹ اور آخری testimonial مل گیا۔
اب تک کی گفتگو سے یہ واضح ہو گیا کہ ایک طرف تو ہمارے دین میں سب سے بڑا جرم‘ سب سے بڑا گناہ‘ سب سے بڑا ظلم‘ جو ناقابل عفو ہے ‘وہ شرک ہے۔ اور دوسری طرف سب سے بڑی سند‘ سب سے بڑا سر ٹیفکیٹ اور سب سے اونچا مقام یہ ہے کہ انسان شرک سے بالکل پاک ہو۔اب ان دونوں چیزوں کو بیک وقت ذہن میں رکھتے ہوئے میں ایک نتیجہ نکال رہا ہوں۔ اور وہ یہ کہ واقعتا ہرگمراہی‘ ضلالت اور کج روی‘ خواہ وہ نظریات کی ہو‘ عقائد کی ہو یا اعمال کی‘ اگرتجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں شرک سے ملتے ہیں۔ اور ہرخیر و خوبی‘ بھلائی ‘نیکی‘ صحتِ فکر‘ صحتِ عقیدہ‘ صحتِ عمل وغیرہ کے جتنے بھی شعبے ہیں وہ سب توحید کی فروع (corollaries)
اور لازمی نتائج ہیں۔ تو اس طرح سے یہ ایک ہمہ گیر تصور ہے۔ شرک کی اقسام اور اس کی فروع کو اگر آپ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہ وہ شجرۂ خبیثہ ہے کہ ہر بدی‘ ہر گناہ ‘ہر جرم‘ اور ہر نظریہ یا خیال کی گمراہی لازماً اسی کی کسی نہ کسی شاخ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور اس کے برعکس ہر خیر ‘ ہر نیکی اور ہر بھلائی‘ خواہ وہ خیال اور نظریے کی ہو یا عمل کی ہو‘ اس کا تعلق لازماً توحید ہی کے شجرئہ طیبہ سے ہے۔اس ’’شجرِ توحید‘‘کے لیے قرآن مجید میں تمثیل آئی ہے اور اس کے بارے میں الفاظ آئے ہیں: {اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ ﴿ۙ۲۴﴾} (ابراہیم) ’’اس کی جڑ مضبوط و مستحکم ہے اور اس کی شاخ آسمان تک پہنچی ہوئی ہے۔‘‘
شرک کی ہمہ گیری کا ایک تصور قرآن مجید میں سورۂ یوسف کی آیت ۱۰۶ میں یوں بیان ہوا ہے:
{وَ مَا یُؤۡمِنُ اَکۡثَرُہُمۡ بِاللّٰہِ اِلَّا وَ ہُمۡ مُّشۡرِکُوۡنَ ﴿۱۰۶﴾}
’’اورانسانوں کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ کو مانتے ہیں‘ مگر کسی نہ کسی نوع کے شرک کے ساتھ‘‘۔
یہ بات جان لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کا انکار تو تاریخ انسانی میں آپ کو شاذ ہی کہیں ملے گا‘ کہیں کہیں اس قسم کے لوگ مل جاتے ہیں کہ جن کی مت بالکل ماری گئی ہو۔ آج کے دَور میں بظاہر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ خدا کا انکار بہت عروج پر ہے‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ خدا کو وہ بھی مانتے ہیں جنہیں منکرین خدا سمجھا جاتا ہے۔ درحقیقت انہوں نے مادّے کو خدا کے مقام پر لے جا کر بٹھا دیا ہے ‘خدا کا انکار نہیں کیا ہے۔ ایک حقیقت کبریٰ کو ماننے پر سب مجبور ہیں‘ جبکہ سارا اختلاف خدا تعالیٰ کی صفات میں ہے۔ مثلاً یہ اختلاف کہ وہ الحیّ ہے یا مُردہ ہے۔اگر مُردہ ہے تو اسے مادّہ کہہ لیجیے ‘اور اگر الحیّ القیّوم ہے‘ صاحب ارادہ ہے تو وہ اللہ ہے۔ چنانچہ فرق تو سارا صفات کا ہے۔ بہرحال یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ خدا کو خدا کے نام سے ماننے والے تاریخ انسانی میں ہمیشہ عظیم اکثریت میں رہے ہیں اور خدا کا صاف انکار کرنے والے شاذ رہے ہیں۔ خدا کوکچھ اور ناموں کے تحت ماننے والوں کی تعداد بھی شاید کچھ مل جائے‘ لیکن جو سب سے بڑی گمراہی ہمیشہ رہی ہے وہ یہ ہے کہ ایک
بڑے خدا کو ماننے کے ساتھ ساتھ کچھ اور چھوٹے خداؤں کو بھی مانااور تسلیم کیا گیا‘ ایمان کے ساتھ کسی نوع کے شرک کی آمیزش کر لی گئی‘ اور یہ ہے اصل گمراہی جو ہمیں پوری تاریخ انسانی میں پھیلی ہوئی اور چھائی ہوئی نظر آتی ہے۔ میں اپنے حقیقی قلبی احساسات آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ مسلمان کا خمیر جس مٹی سے اٹھا ہے‘ مجھے یقین ہے کہ وہ جان بوجھ کر کبھی شرک نہیں کرتا‘بلکہ ایسا ناممکن ہے۔ اس کے تصورات میں اگر شرک آتا ہے تو غیر محسوس طریقے سے درآتا ہے‘ کسی مغالطے کے باعث آتا ہے‘ وہ اس کو شرک سمجھ کر شرک نہیں کرتا‘ اس میں جہالت اور ناسمجھی کارفرما ہو سکتی ہے۔ اس کی ایک شکل یہ بھی ہوتی ہے کہ ہر دَور میں شرک کا یہ مرض ایک نئی صورت اختیار کر کے سامنے آتا ہے جس کو پہچاننے میں کوتاہی رہ جاتی ہے‘ اور جب تک اس کو پہچاننے کی صلاحیت پیدا نہ ہو جائے اس سے پوری طرح بچنا ممکن نہیں۔ بقول شاعر : ؎
بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
من اندازِ قدت را می شناسم

یعنی خواہ تم کسی بھی رنگ کا لبادہ اوڑھ کر آ جاؤ میں تمہیں تمہارے قد سے پہچان لوں گا۔ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص بزعمِ خویش بڑا موحّد ہو اور پچھلے ادوار میں شرک کی جتنی بھی صورتیں رائج رہی ہوں اور علماء نے جن جن کی نشاندہی کر دی ہواُن سب سے وہ اپنے آپ کو بری اور پاک کرچکا ہو‘ بایں ہمہ اپنے دَور کے شرک کو نہ پہچان پایا ہو اور اس میں وہ ملوث ہو۔
اس پر گفتگو تو بعد میں ہو گی لیکن میں مثال کے طور پر علامہ اقبال کی نظم ’’وطنیت‘‘ پیش کر رہا ہوں: ؎
اِس دَور میں مے اور ہے‘ جام اور ہے ‘ جم اور
ساقی نے بنا کی روشِ لطف و ستم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
650 ## - SUBJECT ADDED ENTRY--TOPICAL TERM
Topical term or geographic name entry element اسلامی عقاید | شرک و الحاد | توحید
General subdivision Islamic beliefs Shirk and atheism Monotheism
9 (RLIN) 4590
942 ## - ADDED ENTRY ELEMENTS (KOHA)
Source of classification or shelving scheme
Koha item type Books
Holdings
Withdrawn status Lost status Source of classification or shelving scheme Damaged status Not for loan Permanent Location Current Location Date acquired Source of acquisition Cost, normal purchase price Full call number Barcode Date last seen Price effective from Koha item type
          Learning Resource Center University of Management and Technology, Sialkot City Campus Learning Resource Center University of Management and Technology, Sialkot City Campus 08/02/2022 Punjab Books 200.00 Q&I 297.2 ISR-H 2021 12638 12638 08/02/2022 08/02/2022 Books

© Copyright LRC, UMT, Sialkot 2024. All Rights Reserved. if you  have a query contact: lrc@skt.umt.edu.pk

 

Powered by Koha